نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے
جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی
ان جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اڑاؤں کس کے لیے
وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا
اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹھاؤں کس کے لیے
اب شہر میں اس کا بدل ہی نہیں کوئی ویسا جان غزل ہی نہیں
ایوان غزل میں لفظوں کے گلدان سجاؤں کس کے لیے
مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضا
ان خالی کمروں میں ناصرؔ اب شمع جلاؤں کس کے لیے
the end
ناصرؔ کیا کہتا پھرتا ہے کچھ نہ سنو تو بہتر ہے
دیوانہ ہے دیوانے کے منہ نہ لگو تو بہتر ہے
کل جو تھا وہ آج نہیں جو آج ہے کل مٹ جائے گا
روکھی سوکھی جو مل جائے شکر کرو تو بہتر ہے
کل یہ تاب و تواں نہ رہے گی ٹھنڈا ہو جائے گا لہو
نام خدا ہو جوان ابھی کچھ کر گزرو تو بہتر ہے
کیا جانے کیا رت بدلے حالات کا کوئی ٹھیک نہیں
اب کے سفر میں تم بھی ہمارے ساتھ چلو تو بہتر ہے
کپڑے بدل کر بال بنا کر کہاں چلے ہو کس کے لیے
رات بہت کالی ہے ناصرؔ گھر میں رہو تو بہتر ہے
the end
یوں ترے حسن کی تصویر غزل میں آئے
جیسے بلقیس سلیماں کے محل میں آئے
جبر سے ایک ہوا ذائقۂ ہجر و وصال
اب کہاں سے وہ مزا صبر کے پھل میں آئے
یہ بھی آرائش ہستی کا تقاضا تھا کہ ہم
حلقۂ فکر سے میدان عمل میں آئے
ہر قدم دست و گریباں ہے یہاں خیر سے شر
ہم بھی کس معرکۂ جنگ و جدل میں آئے
زندگی جن کے تصور سے جلا پاتی تھی
ہائے کیا لوگ تھے جو دام اجل میں آئے
the end
او میرے مصروف خدا
اپنی دنیا دیکھ ذرا
اتنی خلقت کے ہوتے
شہروں میں ہے سناٹا
جھونپڑی والوں کی تقدیر
بجھا بجھا سا ایک دیا
خاک اڑاتے ہیں دن رات
میلوں پھیل گئے صحرا
زاغ و زغن کی چیخوں سے
سونا جنگل گونج اٹھا
سورج سر پہ آ پہنچا
گرمی ہے یا روز جزا
پیاسی دھرتی جلتی ہے
سوکھ گئے بہتے دریا
فصلیں جل کر راکھ ہوئیں
نگری نگری کال پڑ
پچھلے پہر کا سناٹا تھا
تارا تارا جاگ رہا تھا
پتھر کی دیوار سے لگ کر
آئینہ تجھے دیکھ رہا تھا
بالوں میں تھی رات کی رانی
ماتھے پر دن کا راجا تھا
اک رخسار پہ زلف گری تھی
اک رخسار پہ چاند کھلا تھا
ٹھوڑی کے جگ مگ شیشے میں
ہونٹوں کا سایا پڑتا تھا
چندر کرن سی انگلی انگلی
ناخن ناخن ہیرا سا تھا
اک پاؤں میں پھول سی جوتی
اک پاؤں سارا ننگا تھا
تیرے آگے شمع دھری تھی
شمع کے آگے اک سایا تھا
تیرے سائے کی لہروں کو
میرا سایا کاٹ رہا تھا
کالے پتھر کی سیڑھی پر
نرگس کا اک پھول کھلا تھا
virsaurdu.blogspot.com
تجھ بن گھر کتنا سونا تھا
دیواروں سے ڈر لگتا تھا
بھولی نہیں وہ شام جدائی
میں اس روز بہت رویا تھا
تجھ کو جانے کی جلدی تھی
اور میں تجھ کو روک رہا تھا
میری آنکھیں بھی روتی تھیں
شام کا تارا بھی روتا تھا
گلیاں شام سے بجھی بجھی تھیں
چاند بھی جلدی ڈوب گیا تھا
سناٹے میں جیسے کوئی
دور سے آوازیں دیتا تھا
یادوں کی سیڑھی سے ناصرؔ
رات اک سایا سا اترا تھا
virsaurdu.blogspot.com
تھوڑی دیر کو جی بہلا تھا
پھر تری یاد نے گھیر لیا تھا
یاد آئی وہ پہلی بارش
جب تجھے ایک نظر دیکھا تھا
ہرے گلاس میں چاند کے ٹکڑے
لال صراحی میں سونا تھا
چاند کے دل میں جلتا سورج
پھول کے سینے میں کانٹا تھا
کاغذ کے دل میں چنگاری
خس کی زباں پر انگارہ تھا
دل کی صورت کا اک پتا
تیری ہتھیلی پر رکھا تھا
شام تو جیسے خواب میں گزری
آدھی رات نشہ ٹوٹا تھا
شہر سے دور ہرے جنگل میں
بارش نے ہمیں گھیر لیا تھا
صبح ہوئی تو سب سے پہلے
میں نے تیرا منہ دیکھا تھا
دیر کے بعد مرے آنگن میں
سرخ انار کا پھول کھلا تھا
دیر کے مرجھائے پیڑوں کو
خوشبو نے آباد کیا تھا
شام کی گہری اونچائی سے
ہم نے دریا کو دیکھا تھا
یاد آئیں کچھ ایسی باتیں
میں جنہیں کب کا بھول چکا تھا
virsaurdu.blogspot.com
تو جب میرے گھر آیا تھا
میں اک سپنا دیکھ رہا تھا
تیرے بالوں کی خوشبو سے
سارا آنگن مہک رہا تھا
چاند کی دھیمی دھیمی ضو میں
سانولا مکھڑا لو دیتا تھا
تیری نیند بھی اڑی اڑی تھی
میں بھی کچھ کچھ جاگ رہا تھا
میرے ہاتھ بھی سلگ رہے تھے
تیرا ماتھا بھی جلتا تھا
دو روحوں کا پیاسا بادل
گرج گرج کر برس رہا تھا
دو یادوں کا چڑھتا دریا
ایک ہی ساگر میں گرتا تھا
دل کی کہانی کہتے کہتے
رات کا آنچل بھیگ چلا تھا
رات گئے سویا تھا لیکن
تجھ سے پہلے جاگ اٹھا تھا
next
خواب میں رات ہم نے کیا دیکھا
آنکھ کھلتے ہی چاند سا دیکھا
کیاریاں دھول سے اٹی پائیں
آشیانہ جلا ہوا دیکھا
فاختہ سرنگوں ببولوں میں
پھول کو پھول سے جدا دیکھا
اس نے منزل پہ لا کے چھوڑ دیا
عمر بھر جس کا راستا دیکھا
ہم نے موتی سمجھ کے چوم لیا
سنگ ریزہ جہاں پڑا دیکھا
کم نما ہم بھی ہیں مگر پیارے
کوئی تجھ سا نہ خود نما دیکھا
next
دکھ کی لہر نے چھیڑا ہوگا
یاد نے کنکر پھینکا ہوگا
آج تو میرا دل کہتا ہے
تو اس وقت اکیلا ہوگا
میرے چومے ہوئے ہاتھوں سے
اوروں کو خط لکھتا ہوگا
بھیگ چلیں اب رات کی پلکیں
تو اب تھک کر سویا ہوگا
ریل کی گہری سیٹی سن کر
رات کا جنگل گونجا ہوگا
شہر کے خالی اسٹیشن پر
کوئی مسافر اترا ہوگا
آنگن میں پھر چڑیاں بولیں
تو اب سو کر اٹھا ہوگا
یادوں کی جلتی شبنم سے
پھول سا مکھڑا دھویا ہوگا
موتی جیسی شکل بنا کر
آئینے کو تکتا ہوگا
شام ہوئی اب تو بھی شاید
اپنے گھر کو لوٹا ہوگا
نیلی دھندھلی خاموشی میں
تاروں کی دھن سنتا ہوگا
میرا ساتھی شام کا تارا
تجھ سے آنکھ ملاتا ہوگا
شام کے چلتے ہاتھ نے تجھ کو
میرا سلام تو بھیجا ہوگا
پیاسی کرلاتی کونجوں نے
میرا دکھ تو سنایا ہوگا
میں تو آج بہت رویا ہوں
تو بھی شاید رویا ہوگا
ناصرؔ تیرا میت پرانا
تجھ کو یاد تو آتا ہوگا
next
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
آج مشکل تھا سنبھلنا اے دوست
تو مصیبت میں عجب یاد آیا
دن گزارا تھا بڑی مشکل سے
پھر ترا وعدۂ شب یاد آیا
تیرا بھولا ہوا پیمان وفا
مر رہیں گے اگر اب یاد آیا
پھر کئی لوگ نظر سے گزرے
پھر کوئی شہر طرب یاد آیا
حال دل ہم بھی سناتے لیکن
جب وہ رخصت ہوا تب یاد آیا
بیٹھ کر سایۂ گل میں ناصرؔ
ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا
next
دھوپ تھی اور بادل چھایا تھا
دیر کے بعد تجھے دیکھا تھا
میں اس جانب تو اس جانب
بیچ میں پتھر کا دریا تھا
ایک پیڑ کے ہاتھ تھے خالی
اک ٹہنی پر دیا جلا تھا
دیکھ کے دو جلتے سایوں کو
میں تو اچانک سہم گیا تھا
ایک کے دونوں پاؤں تھے غائب
ایک کا پورا ہاتھ کٹا تھا
ایک کے الٹے پیر تھے لیکن
وہ تیزی سے بھاگ رہا تھا
ان سے الجھ کر بھی کیا لیتا
تین تھے وہ اور میں تنہا تھا
next
دیار دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا
ملا نہیں تو کیا ہوا وہ شکل تو دکھا گیا
وہ دوستی تو خیر اب نصیب دشمناں ہوئی
وہ چھوٹی چھوٹی رنجشوں کا لطف بھی چلا گیا
جدائیوں کے زخم درد زندگی نے بھر دیے
تجھے بھی نیند آ گئی مجھے بھی صبر آ گیا
پکارتی ہیں فرصتیں کہاں گئیں وہ صحبتیں
زمیں نگل گئی انہیں کہ آسمان کھا گیا
یہ صبح کی سفیدیاں یہ دوپہر کی زردیاں
اب آئنے میں دیکھتا ہوں میں کہاں چلا گیا
یہ کس خوشی کی ریت پر غموں کو نیند آ گئی
وہ لہر کس طرف گئی یہ میں کہاں سما گیا
گئے دنوں کی لاش پر پڑے رہو گے کب تلک
الم کشو اٹھو کہ آفتاب سر پہ آ گیا
next
رہ جنوں میں خدا کا حوالہ کیا کرتا
یہ خضر رنج سفر کا ازالہ کیا کرتا
گزارنی تھی ترے ہجر کی پہاڑ سی رات
میں تار ریشم و زر کا دوشالہ کیا کرتا
نہ شغل خارا تراشی نہ کاروبار جنوں
میں کوہ و دشت میں فریاد و نالہ کیا کرتا
حکایت غم دنیا کو چاہئے دفتر
ورق ورق مرے دل کا رسالہ کیا کرتا
میں تشنہ کام ترے میکدے سے لوٹ آیا
کسی کے نام کا لے کر پیالہ کیا کرتا
next
زباں سخن کو سخن بانکپن کو ترسے گا
سخن کدہ مری طرز سخن کو ترسے گا
نئے پیالے سہی تیرے دور میں ساقی
یہ دور میری شراب کہن کو ترسے گا
مجھے تو خیر وطن چھوڑ کر اماں نہ ملی
وطن بھی مجھ سے غریب الوطن کو ترسے گا
انہی کے دم سے فروزاں ہیں ملتوں کے چراغ
زمانہ صحبت ارباب فن کو ترسے گا
بدل سکو تو بدل دو یہ باغباں ورنہ
یہ باغ سایۂ سرو و سمن کو ترسے گا
ہوائے ظلم یہی ہے تو دیکھنا اک دن
زمین پانی کو سورج کرن کو ترسے گا
next
سر میں جب عشق کا سودا نہ رہا
کیا کہیں زیست میں کیا کیا نہ رہا
اب تو دنیا بھی وہ دنیا نہ رہی
اب ترا دھیان بھی اتنا نہ رہا
قصۂ شوق سناؤں کس کو
رازداری کا زمانا نہ رہا
زندگی جس کی تمنا میں کٹی
وہ مرے حال سے بیگانہ رہا
ڈیرے ڈالے ہیں خزاں نے چودیس
گل تو گل باغ میں کانٹا نہ رہا
دن دہاڑے یہ لہو کی ہولی
خلق کو خوف خدا کا نہ رہا
اب تو سو جاؤ ستم کے مارو
آسماں پر کوئی تارا نہ رہا
next
میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
پہلے تیرا نام لکھا تھا
میں وہ صبر صمیم ہوں جس نے
بار امانت سر پہ لیا تھا
میں وہ اسم عظیم ہوں جس کو
جن و ملک نے سجدہ کیا تھا
تو نے کیوں مرا ہاتھ نہ پکڑا
میں جب رستے سے بھٹکا تھا
جو پایا ہے وہ تیرا ہے
جو کھویا وہ بھی تیرا تھا
تجھ بن ساری عمر گزاری
لوگ کہیں گے تو میرا تھا
پہلی بارش بھیجنے والے
میں ترے درشن کا پیاسا تھا
next
نئے دیس کا رنگ نیا تھا
دھرتی سے آکاش ملا تھا
دور کے دریاؤں کا سونا
ہرے سمندر میں گرتا تھا
چلتی ندیاں گاتے نوکے
نوکوں میں اک شہر بسا تھا
نوکے ہی میں رین بسیرا
نوکے ہی میں دن کٹتا تھا
نوکا ہی بچوں کا جھولا
نوکا ہی پیری کا عصا تھا
مچھلی جال میں تڑپ رہی تھی
نوکا لہروں میں الجھا تھا
ہنستا پانی، روتا پانی
مجھ کو آوازیں دیتا تھا
تیرے دھیان کی کشتی لے کر
میں نے دریا پار کیا تھا
next
اس سے پہلے کہ بچھڑ جائیں ہم
دو قدم اور مرے ساتھ چلو
ابھی دیکھا نہیں جی بھر کے تمہیں
ابھی کچھ دیر مرے پاس رہو
مجھ سا پھر کوئی نہ آئے گا یہاں
روک لو مجھ کو اگر روک سکو
یوں نہ گزرے گی شب غم ناصرؔ
اس کی آنکھوں کی کہانی چھیڑو
next
پتھر بنا دیا مجھے رونے نہیں دیا
دامن بھی تیرے غم نے بھگونے نہیں دیا
تنہائیاں تمہارا پتہ پوچھتی رہیں
شب بھر تمہاری یاد نے سونے نہیں دیا
آنکھوں میں آ کے بیٹھ گئی آنسوؤں کی لہر
پلکوں پہ کوئی خواب پرونے نہیں دیا
دل کو تمہارے نام کے آنسو عزیز تھے
دنیا نے کوئی درد سمونے نہیں دیا
ناصرؔ یوں اس کی یاد چلی ہاتھ تھام کے
میلے میں اس جہان کے کھونے نہیں دیا
next
پتھر کا وہ شہر بھی کیا تھا
شہر کے نیچے شہر بسا تھا
پیڑ بھی پتھر پھول بھی پتھر
پتا پتا پتھر کا تھا
چاند بھی پتھر جھیل بھی پتھر
پانی بھی پتھر لگتا تھا
لوگ بھی سارے پتھر کے تھے
رنگ بھی ان کا پتھر سا تھا
پتھر کا اک سانپ سنہرا
کالے پتھر سے لپٹا تھا
پتھر کی اندھی گلیوں میں
میں تجھے ساتھ لیے پھرتا تھا
گونگی وادی گونج اٹھتی تھی
جب کوئی پتھر گرتا تھا
next
پردے میں ہر آواز کے شامل تو وہی ہے
ہم لاکھ بدل جائیں مگر دل تو وہی ہے
موضوع سخن ہے وہی افسانۂ شیریں
محفل ہو کوئی رونق محفل تو وہی ہے
محسوس جو ہوتا ہے دکھائی نہیں دیتا
دل اور نظر میں حد فاضل تو وہی ہے
ہر چند ترے لطف سے محروم نہیں ہم
لیکن دل بیتاب کی مشکل تو وہی ہے
گرداب سے نکلے بھی تو جائیں گے کہاں ہم
ڈوبی تھی جہاں ناؤ یہ ساحل تو وہی ہے
لٹ جاتے ہیں دن کو بھی جہاں قافلے والے
ہشیار مسافر کہ یہ منزل تو وہی ہے
وہ رنگ وہ آواز وہ سج اور وہ صورت
سچ کہتے ہو تم پیار کے قابل تو وہی ہے
صد شکر کہ اس حال میں جیتے تو ہیں ناصرؔ
حاصل نہ سہی کاوش حاصل تو وہی ہے
next
پل پل کانٹا سا چبھتا تھا
یہ ملنا بھی کیا ملنا تھا
یہ کانٹے اور تیرا دامن
میں اپنا دکھ بھول گیا تھا
کتنی باتیں کی تھیں لیکن
ایک بات سے جی ڈرتا تھا
تیرے ہاتھ کی چائے تو پی تھی
دل کا رنج تو دل میں رہا تھا
کسی پرانے وہم نے شاید
تجھ کو پھر بے چین کیا تھا
میں بھی مسافر تجھ کو بھی جلدی
گاڑی کا بھی وقت ہوا تھا
اک اجڑے سے اسٹیشن پر
تو نے مجھ کو چھوڑ دیا تھا
next
تنہائی کا دکھ گہرا تھا
میں دریا دریا روتا تھا
ایک ہی لہر نہ سنبھلی ورنہ
میں طوفانوں سے کھیلا تھا
تنہائی کا تنہا سایا
دیر سے میرے ساتھ لگا تھا
چھوڑ گئے جب سارے ساتھی
تنہائی نے ساتھ دیا تھا
سوکھ گئی جب سکھ کی ڈالی
تنہائی کا پھول کھلا تھا
تنہائی میں یاد خدا تھی
تنہائی میں خوف خدا تھا
تنہائی محراب عبادت
تنہائی منبر کا دیا تھا
تنہائی مرا پائے شکستہ
تنہائی مرا دست دعا تھا
وہ جنت مرے دل میں چھپی تھی
میں جسے باہر ڈھونڈ رہا تھا
تنہائی مرے دل کی جنت
میں تنہا ہوں میں تنہا تھا
next
جب رات گئے تری یاد آئی سو طرح سے جی کو بہلایا
کبھی اپنے ہی دل سے باتیں کیں کبھی تیری یاد کو سمجھایا
یوں ہی وقت گنوایا موتی سا یوں ہی عمر گنوائی سونا سی
سچ کہتے ہو تم ہم سخنو اس عشق میں ہم نے کیا پایا
جب پہلے پہل تجھے دیکھا تھا دل کتنے زور سے دھڑکا تھا
وہ لہر نہ پھر دل میں جاگی وہ وقت نہ لوٹ کے پھر آیا
پھر آج ترے دروازے پر بڑی دیر کے بعد گیا تھا مگر
اک بات اچانک یاد آئی میں باہر ہی سے لوٹ آیا
Comments
Post a Comment