Nasir Kazmi

Image result for nasir Kazmi pics
نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے

وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے

جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی

ان جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اڑاؤں کس کے لیے

وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا

اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹھاؤں کس کے لیے

اب شہر میں اس کا بدل ہی نہیں کوئی ویسا جان غزل ہی نہیں

ایوان غزل میں لفظوں کے گلدان سجاؤں کس کے لیے

مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضا

ان خالی کمروں میں ناصرؔ اب شمع جلاؤں کس کے لیے

the end



ناصرؔ کیا کہتا پھرتا ہے کچھ نہ سنو تو بہتر ہے

دیوانہ ہے دیوانے کے منہ نہ لگو تو بہتر ہے

کل جو تھا وہ آج نہیں جو آج ہے کل مٹ جائے گا

روکھی سوکھی جو مل جائے شکر کرو تو بہتر ہے

کل یہ تاب و تواں نہ رہے گی ٹھنڈا ہو جائے گا لہو

نام خدا ہو جوان ابھی کچھ کر گزرو تو بہتر ہے

کیا جانے کیا رت بدلے حالات کا کوئی ٹھیک نہیں

اب کے سفر میں تم بھی ہمارے ساتھ چلو تو بہتر ہے

کپڑے بدل کر بال بنا کر کہاں چلے ہو کس کے لیے

رات بہت کالی ہے ناصرؔ گھر میں رہو تو بہتر ہے

the end 




یوں ترے حسن کی تصویر غزل میں آئے

جیسے بلقیس سلیماں کے محل میں آئے

جبر سے ایک ہوا ذائقۂ ہجر و وصال

اب کہاں سے وہ مزا صبر کے پھل میں آئے

یہ بھی آرائش ہستی کا تقاضا تھا کہ ہم

حلقۂ فکر سے میدان عمل میں آئے

ہر قدم دست و گریباں ہے یہاں خیر سے شر

ہم بھی کس معرکۂ جنگ و جدل میں آئے

زندگی جن کے تصور سے جلا پاتی تھی

ہائے کیا لوگ تھے جو دام اجل میں آئے


the end


او میرے مصروف خدا


اپنی دنیا دیکھ ذرا
اتنی خلقت کے ہوتے
شہروں میں ہے سناٹا
جھونپڑی والوں کی تقدیر
بجھا بجھا سا ایک دیا
خاک اڑاتے ہیں دن رات
میلوں پھیل گئے صحرا
زاغ و زغن کی چیخوں سے
سونا جنگل گونج اٹھا
سورج سر پہ آ پہنچا
گرمی ہے یا روز جزا
پیاسی دھرتی جلتی ہے
سوکھ گئے بہتے دریا
فصلیں جل کر راکھ ہوئیں
نگری نگری کال پڑ
the end
پچھلے پہر کا سناٹا تھا
تارا تارا جاگ رہا تھا
پتھر کی دیوار سے لگ کر
آئینہ تجھے دیکھ رہا تھا
بالوں میں تھی رات کی رانی
ماتھے پر دن کا راجا تھا
اک رخسار پہ زلف گری تھی
اک رخسار پہ چاند کھلا تھا
ٹھوڑی کے جگ مگ شیشے میں
ہونٹوں کا سایا پڑتا تھا
چندر کرن سی انگلی انگلی
ناخن ناخن ہیرا سا تھا
اک پاؤں میں پھول سی جوتی
اک پاؤں سارا ننگا تھا
تیرے آگے شمع دھری تھی
شمع کے آگے اک سایا تھا
تیرے سائے کی لہروں کو
میرا سایا کاٹ رہا تھا
کالے پتھر کی سیڑھی پر
نرگس کا اک پھول کھلا تھا


virsaurdu.blogspot.com


تجھ بن گھر کتنا سونا تھا

دیواروں سے ڈر لگتا تھا

بھولی نہیں وہ شام جدائی

میں اس روز بہت رویا تھا

تجھ کو جانے کی جلدی تھی

اور میں تجھ کو روک رہا تھا

میری آنکھیں بھی روتی تھیں

شام کا تارا بھی روتا تھا

گلیاں شام سے بجھی بجھی تھیں

چاند بھی جلدی ڈوب گیا تھا

سناٹے میں جیسے کوئی

دور سے آوازیں دیتا تھا

یادوں کی سیڑھی سے ناصرؔ

رات اک سایا سا اترا تھا


virsaurdu.blogspot.com


تھوڑی دیر کو جی بہلا تھا

پھر تری یاد نے گھیر لیا تھا

یاد آئی وہ پہلی بارش

جب تجھے ایک نظر دیکھا تھا

ہرے گلاس میں چاند کے ٹکڑے

لال صراحی میں سونا تھا

چاند کے دل میں جلتا سورج

پھول کے سینے میں کانٹا تھا

کاغذ کے دل میں چنگاری

خس کی زباں پر انگارہ تھا

دل کی صورت کا اک پتا

تیری ہتھیلی پر رکھا تھا

شام تو جیسے خواب میں گزری

آدھی رات نشہ ٹوٹا تھا

شہر سے دور ہرے جنگل میں

بارش نے ہمیں گھیر لیا تھا

صبح ہوئی تو سب سے پہلے

میں نے تیرا منہ دیکھا تھا

دیر کے بعد مرے آنگن میں

سرخ انار کا پھول کھلا تھا

دیر کے مرجھائے پیڑوں کو

خوشبو نے آباد کیا تھا

شام کی گہری اونچائی سے

ہم نے دریا کو دیکھا تھا

یاد آئیں کچھ ایسی باتیں

میں جنہیں کب کا بھول چکا تھا

virsaurdu.blogspot.com
 
تو جب میرے گھر آیا تھا

میں اک سپنا دیکھ رہا تھا

تیرے بالوں کی خوشبو سے

سارا آنگن مہک رہا تھا

چاند کی دھیمی دھیمی ضو میں

سانولا مکھڑا لو دیتا تھا

تیری نیند بھی اڑی اڑی تھی

میں بھی کچھ کچھ جاگ رہا تھا

میرے ہاتھ بھی سلگ رہے تھے

تیرا ماتھا بھی جلتا تھا

دو روحوں کا پیاسا بادل

گرج گرج کر برس رہا تھا

دو یادوں کا چڑھتا دریا

ایک ہی ساگر میں گرتا تھا

دل کی کہانی کہتے کہتے

رات کا آنچل بھیگ چلا تھا

رات گئے سویا تھا لیکن

تجھ سے پہلے جاگ اٹھا تھا



next





خواب میں رات ہم نے کیا دیکھا

آنکھ کھلتے ہی چاند سا دیکھا

کیاریاں دھول سے اٹی پائیں

آشیانہ جلا ہوا دیکھا

فاختہ سرنگوں ببولوں میں

پھول کو پھول سے جدا دیکھا

اس نے منزل پہ لا کے چھوڑ دیا

عمر بھر جس کا راستا دیکھا

ہم نے موتی سمجھ کے چوم لیا

سنگ ریزہ جہاں پڑا دیکھا

کم نما ہم بھی ہیں مگر پیارے

کوئی تجھ سا نہ خود نما دیکھا


next


دکھ کی لہر نے چھیڑا ہوگا

یاد نے کنکر پھینکا ہوگا

آج تو میرا دل کہتا ہے

تو اس وقت اکیلا ہوگا

میرے چومے ہوئے ہاتھوں سے

اوروں کو خط لکھتا ہوگا

بھیگ چلیں اب رات کی پلکیں

تو اب تھک کر سویا ہوگا

ریل کی گہری سیٹی سن کر

رات کا جنگل گونجا ہوگا

شہر کے خالی اسٹیشن پر

کوئی مسافر اترا ہوگا

آنگن میں پھر چڑیاں بولیں

تو اب سو کر اٹھا ہوگا

یادوں کی جلتی شبنم سے

پھول سا مکھڑا دھویا ہوگا

موتی جیسی شکل بنا کر

آئینے کو تکتا ہوگا

شام ہوئی اب تو بھی شاید

اپنے گھر کو لوٹا ہوگا

نیلی دھندھلی خاموشی میں

تاروں کی دھن سنتا ہوگا

میرا ساتھی شام کا تارا

تجھ سے آنکھ ملاتا ہوگا

شام کے چلتے ہاتھ نے تجھ کو

میرا سلام تو بھیجا ہوگا

پیاسی کرلاتی کونجوں نے

میرا دکھ تو سنایا ہوگا

میں تو آج بہت رویا ہوں

تو بھی شاید رویا ہوگا

ناصرؔ تیرا میت پرانا

تجھ کو یاد تو آتا ہوگا


next



دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا

وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

آج مشکل تھا سنبھلنا اے دوست

تو مصیبت میں عجب یاد آیا

دن گزارا تھا بڑی مشکل سے

پھر ترا وعدۂ شب یاد آیا

تیرا بھولا ہوا پیمان وفا

مر رہیں گے اگر اب یاد آیا

پھر کئی لوگ نظر سے گزرے

پھر کوئی شہر طرب یاد آیا

حال دل ہم بھی سناتے لیکن

جب وہ رخصت ہوا تب یاد آیا

بیٹھ کر سایۂ گل میں ناصرؔ

ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا


next



دھوپ تھی اور بادل چھایا تھا

دیر کے بعد تجھے دیکھا تھا

میں اس جانب تو اس جانب

بیچ میں پتھر کا دریا تھا

ایک پیڑ کے ہاتھ تھے خالی

اک ٹہنی پر دیا جلا تھا

دیکھ کے دو جلتے سایوں کو

میں تو اچانک سہم گیا تھا

ایک کے دونوں پاؤں تھے غائب

ایک کا پورا ہاتھ کٹا تھا

ایک کے الٹے پیر تھے لیکن

وہ تیزی سے بھاگ رہا تھا

ان سے الجھ کر بھی کیا لیتا

تین تھے وہ اور میں تنہا تھا


next

دیار دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا

ملا نہیں تو کیا ہوا وہ شکل تو دکھا گیا

وہ دوستی تو خیر اب نصیب دشمناں ہوئی

وہ چھوٹی چھوٹی رنجشوں کا لطف بھی چلا گیا

جدائیوں کے زخم درد زندگی نے بھر دیے

تجھے بھی نیند آ گئی مجھے بھی صبر آ گیا

پکارتی ہیں فرصتیں کہاں گئیں وہ صحبتیں

زمیں نگل گئی انہیں کہ آسمان کھا گیا

یہ صبح کی سفیدیاں یہ دوپہر کی زردیاں

اب آئنے میں دیکھتا ہوں میں کہاں چلا گیا

یہ کس خوشی کی ریت پر غموں کو نیند آ گئی

وہ لہر کس طرف گئی یہ میں کہاں سما گیا

گئے دنوں کی لاش پر پڑے رہو گے کب تلک

الم کشو اٹھو کہ آفتاب سر پہ آ گیا



next

رہ جنوں میں خدا کا حوالہ کیا کرتا

یہ خضر رنج سفر کا ازالہ کیا کرتا

گزارنی تھی ترے ہجر کی پہاڑ سی رات

میں تار ریشم و زر کا دوشالہ کیا کرتا

نہ شغل خارا تراشی نہ کاروبار جنوں

میں کوہ و دشت میں فریاد و نالہ کیا کرتا

حکایت غم دنیا کو چاہئے دفتر

ورق ورق مرے دل کا رسالہ کیا کرتا

میں تشنہ کام ترے میکدے سے لوٹ آیا

کسی کے نام کا لے کر پیالہ کیا کرتا


next


زباں سخن کو سخن بانکپن کو ترسے گا

سخن کدہ مری طرز سخن کو ترسے گا

نئے پیالے سہی تیرے دور میں ساقی

یہ دور میری شراب کہن کو ترسے گا

مجھے تو خیر وطن چھوڑ کر اماں نہ ملی

وطن بھی مجھ سے غریب الوطن کو ترسے گا

انہی کے دم سے فروزاں ہیں ملتوں کے چراغ

زمانہ صحبت ارباب فن کو ترسے گا

بدل سکو تو بدل دو یہ باغباں ورنہ

یہ باغ سایۂ سرو و سمن کو ترسے گا

ہوائے ظلم یہی ہے تو دیکھنا اک دن

زمین پانی کو سورج کرن کو ترسے گا



next


سر میں جب عشق کا سودا نہ رہا

کیا کہیں زیست میں کیا کیا نہ رہا

اب تو دنیا بھی وہ دنیا نہ رہی

اب ترا دھیان بھی اتنا نہ رہا

قصۂ شوق سناؤں کس کو

رازداری کا زمانا نہ رہا

زندگی جس کی تمنا میں کٹی

وہ مرے حال سے بیگانہ رہا

ڈیرے ڈالے ہیں خزاں نے چودیس

گل تو گل باغ میں کانٹا نہ رہا

دن دہاڑے یہ لہو کی ہولی

خلق کو خوف خدا کا نہ رہا

اب تو سو جاؤ ستم کے مارو

آسماں پر کوئی تارا نہ رہا



next



میں نے جب لکھنا سیکھا تھا

پہلے تیرا نام لکھا تھا

میں وہ صبر صمیم ہوں جس نے

بار امانت سر پہ لیا تھا

میں وہ اسم عظیم ہوں جس کو

جن و ملک نے سجدہ کیا تھا

تو نے کیوں مرا ہاتھ نہ پکڑا

میں جب رستے سے بھٹکا تھا

جو پایا ہے وہ تیرا ہے

جو کھویا وہ بھی تیرا تھا

تجھ بن ساری عمر گزاری

لوگ کہیں گے تو میرا تھا

پہلی بارش بھیجنے والے

میں ترے درشن کا پیاسا تھا


next


نئے دیس کا رنگ نیا تھا

دھرتی سے آکاش ملا تھا

دور کے دریاؤں کا سونا

ہرے سمندر میں گرتا تھا

چلتی ندیاں گاتے نوکے

نوکوں میں اک شہر بسا تھا

نوکے ہی میں رین بسیرا

نوکے ہی میں دن کٹتا تھا

نوکا ہی بچوں کا جھولا

نوکا ہی پیری کا عصا تھا

مچھلی جال میں تڑپ رہی تھی

نوکا لہروں میں الجھا تھا

ہنستا پانی، روتا پانی

مجھ کو آوازیں دیتا تھا

تیرے دھیان کی کشتی لے کر

میں نے دریا پار کیا تھا


next


اس سے پہلے کہ بچھڑ جائیں ہم

دو قدم اور مرے ساتھ چلو

ابھی دیکھا نہیں جی بھر کے تمہیں

ابھی کچھ دیر مرے پاس رہو

مجھ سا پھر کوئی نہ آئے گا یہاں

روک لو مجھ کو اگر روک سکو

یوں نہ گزرے گی شب غم ناصرؔ

اس کی آنکھوں کی کہانی چھیڑو


next


پتھر بنا دیا مجھے رونے نہیں دیا

دامن بھی تیرے غم نے بھگونے نہیں دیا

تنہائیاں تمہارا پتہ پوچھتی رہیں

شب بھر تمہاری یاد نے سونے نہیں دیا

آنکھوں میں آ کے بیٹھ گئی آنسوؤں کی لہر

پلکوں پہ کوئی خواب پرونے نہیں دیا

دل کو تمہارے نام کے آنسو عزیز تھے

دنیا نے کوئی درد سمونے نہیں دیا

ناصرؔ یوں اس کی یاد چلی ہاتھ تھام کے

میلے میں اس جہان کے کھونے نہیں دیا


next


پتھر کا وہ شہر بھی کیا تھا

شہر کے نیچے شہر بسا تھا

پیڑ بھی پتھر پھول بھی پتھر

پتا پتا پتھر کا تھا

چاند بھی پتھر جھیل بھی پتھر

پانی بھی پتھر لگتا تھا

لوگ بھی سارے پتھر کے تھے

رنگ بھی ان کا پتھر سا تھا

پتھر کا اک سانپ سنہرا

کالے پتھر سے لپٹا تھا

پتھر کی اندھی گلیوں میں

میں تجھے ساتھ لیے پھرتا تھا

گونگی وادی گونج اٹھتی تھی

جب کوئی پتھر گرتا تھا


next


 پردے میں ہر آواز کے شامل تو وہی ہے

ہم لاکھ بدل جائیں مگر دل تو وہی ہے

موضوع سخن ہے وہی افسانۂ شیریں

محفل ہو کوئی رونق محفل تو وہی ہے

محسوس جو ہوتا ہے دکھائی نہیں دیتا

دل اور نظر میں حد فاضل تو وہی ہے

ہر چند ترے لطف سے محروم نہیں ہم

لیکن دل بیتاب کی مشکل تو وہی ہے

گرداب سے نکلے بھی تو جائیں گے کہاں ہم

ڈوبی تھی جہاں ناؤ یہ ساحل تو وہی ہے

لٹ جاتے ہیں دن کو بھی جہاں قافلے والے

ہشیار مسافر کہ یہ منزل تو وہی ہے

وہ رنگ وہ آواز وہ سج اور وہ صورت

سچ کہتے ہو تم پیار کے قابل تو وہی ہے

صد شکر کہ اس حال میں جیتے تو ہیں ناصرؔ

حاصل نہ سہی کاوش حاصل تو وہی ہے


next


پل پل کانٹا سا چبھتا تھا

یہ ملنا بھی کیا ملنا تھا

یہ کانٹے اور تیرا دامن

میں اپنا دکھ بھول گیا تھا

کتنی باتیں کی تھیں لیکن

ایک بات سے جی ڈرتا تھا

تیرے ہاتھ کی چائے تو پی تھی

دل کا رنج تو دل میں رہا تھا

کسی پرانے وہم نے شاید

تجھ کو پھر بے چین کیا تھا

میں بھی مسافر تجھ کو بھی جلدی

گاڑی کا بھی وقت ہوا تھا

اک اجڑے سے اسٹیشن پر

تو نے مجھ کو چھوڑ دیا تھا



next


تنہائی کا دکھ گہرا تھا

میں دریا دریا روتا تھا

ایک ہی لہر نہ سنبھلی ورنہ

میں طوفانوں سے کھیلا تھا

تنہائی کا تنہا سایا

دیر سے میرے ساتھ لگا تھا

چھوڑ گئے جب سارے ساتھی

تنہائی نے ساتھ دیا تھا

سوکھ گئی جب سکھ کی ڈالی

تنہائی کا پھول کھلا تھا

تنہائی میں یاد خدا تھی

تنہائی میں خوف خدا تھا

تنہائی محراب عبادت

تنہائی منبر کا دیا تھا

تنہائی مرا پائے شکستہ

تنہائی مرا دست دعا تھا

وہ جنت مرے دل میں چھپی تھی

میں جسے باہر ڈھونڈ رہا تھا

تنہائی مرے دل کی جنت

میں تنہا ہوں میں تنہا تھا


next


جب رات گئے تری یاد آئی سو طرح سے جی کو بہلایا

کبھی اپنے ہی دل سے باتیں کیں کبھی تیری یاد کو سمجھایا

یوں ہی وقت گنوایا موتی سا یوں ہی عمر گنوائی سونا سی

سچ کہتے ہو تم ہم سخنو اس عشق میں ہم نے کیا پایا

جب پہلے پہل تجھے دیکھا تھا دل کتنے زور سے دھڑکا تھا

وہ لہر نہ پھر دل میں جاگی وہ وقت نہ لوٹ کے پھر آیا

پھر آج ترے دروازے پر بڑی دیر کے بعد گیا تھا مگر

اک بات اچانک یاد آئی میں باہر ہی سے لوٹ آیا

 

Comments