اس کو جدا ہوئے بھی زمانہ بہت ہوا
اب کیا کہیں یہ قصہ پرانا بہت ہوا
ڈھلتی نہ تھی کسی بھی جتن سے شب فراق
اے مرگ ناگہاں ترا آنا بہت ہوا
ہم خلد سے نکل تو گئے ہیں پر اے خدا
اتنے سے واقعے کا فسانہ بہت ہوا
اب ہم ہیں اور سارے زمانے کی دشمنی
اس سے ذرا سا ربط بڑھانا بہت ہوا
اب کیوں نہ زندگی پہ محبت کو وار دیں
اس عاشقی میں جان سے جانا بہت ہوا
اب تک تو دل کا دل سے تعارف نہ ہو سکا
مانا کہ اس سے ملنا ملانا بہت ہوا
کیا کیا نہ ہم خراب ہوئے ہیں مگر یہ دل
اے یاد یار تیرا ٹھکانہ بہت ہوا
کہتا تھا ناصحوں سے مرے منہ نہ آئیو
پھر کیا تھا ایک ہو کا بہانہ بہت ہوا
لو پھر ترے لبوں پہ اسی بے وفا کا ذکر
احمد فرازؔ تجھ سے کہا نہ بہت ہوا
next
اس نے سکوت شب میں بھی اپنا پیام رکھ دیا
ہجر کی رات بام پر ماہ تمام رکھ دیا
آمد دوست کی نوید کوئے وفا میں عام تھی
میں نے بھی اک چراغ سا دل سر شام رکھ دیا
شدت تشنگی میں بھی غیرت مے کشی رہی
اس نے جو پھیر لی نظر میں نے بھی جام رکھ دیا
اس نے نظر نظر میں ہی ایسے بھلے سخن کہے
میں نے تو اس کے پاؤں میں سارا کلام رکھ دیا
دیکھو یہ میرے خواب تھے دیکھو یہ میرے زخم ہیں
میں نے تو سب حساب جاں بر سر عام رکھ دیا
اب کے بہار نے بھی کیں ایسی شرارتیں کہ بس
کبک دری کی چال میں تیرا خرام رکھ دیا
جو بھی ملا اسی کا دل حلقہ بگوش یار تھا
اس نے تو سارے شہر کو کر کے غلام رکھ دیا
اور فرازؔ چاہئیں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا
next
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا
اتنا مانوس نہ ہو خلوت غم سے اپنی
تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا
ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا
زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا
تیری بخشش تری دہلیز پہ دھر جائے گا
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فرازؔ
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
next
جب یار نے رخت سفر باندھا کب ضبط کا پارا اس دن تھا
ہر درد نے دل کو سہلایا کیا حال ہمارا اس دن تھا
جب خواب ہوئیں اس کی آنکھیں جب دھند ہوا اس کا چہرہ
ہر اشک ستارہ اس شب تھا ہر زخم انگارہ اس دن تھا
سب یاروں کے ہوتے سوتے ہم کس سے گلے مل کر روتے
کب گلیاں اپنی گلیاں تھیں کب شہر ہمارا اس دن تھا
جب تجھ سے ذرا غافل ٹھہرے ہر یاد نے دل پر دستک دی
جب لب پہ تمہارا نام نہ تھا ہر دکھ نے پکارا اس دن تھا
اک تم ہی فرازؔ نہ تھے تنہا اب کے تو بلا واجب آئی
اک بھیڑ لگی تھی مقتل میں ہر درد کا مارا اس دن تھا
next
جسم شعلہ ہے جبھی جامۂ سادہ پہنا
میرے سورج نے بھی بادل کا لبادہ پہنا
سلوٹیں ہیں مرے چہرے پہ تو حیرت کیوں ہے
زندگی نے مجھے کچھ تم سے زیادہ پہنا
خواہشیں یوں ہی برہنہ ہوں تو جل بجھتی ہیں
اپنی چاہت کو کبھی کوئی ارادہ پہنا
یار خوش ہیں کہ انہیں جامۂ احرام ملا
لوگ ہنستے ہیں کہ قامت سے زیادہ پہنا
یار پیماں شکن آئے اگر اب کے تو اسے
کوئی زنجیر وفا اے شب وعدہ پہنا
غیرت عشق تو مانع تھی مگر میں نے فرازؔ
دوست کا طوق سر محفل اعدا پہنا
next
جو بھی درون دل ہے وہ باہر نہ آئے گا
اب آگہی کا زہر زباں پر نہ آئے گا
اب کے بچھڑ کے اس کو ندامت تھی اس قدر
جی چاہتا بھی ہو تو پلٹ کر نہ آئے گا
یوں پھر رہا ہے کانچ کا پیکر لیے ہوئے
غافل کو یہ گماں ہے کہ پتھر نہ آئے گا
پھر بو رہا ہوں آج انہیں ساحلوں پہ پھول
پھر جیسے موج میں یہ سمندر نہ آئے گا
میں جاں بلب ہوں ترک تعلق کے زہر سے
وہ مطمئن کہ حرف تو اس پر نہ آئے گا
next
دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا
وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا
اب اسے لوگ سمجھتے ہیں گرفتار مرا
سخت نادم ہے مجھے دام میں لانے والا
صبح دم چھوڑ گیا نکہت گل کی صورت
رات کو غنچۂ دل میں سمٹ آنے والا
کیا کہیں کتنے مراسم تھے ہمارے اس سے
وہ جو اک شخص ہے منہ پھیر کے جانے والا
تیرے ہوتے ہوئے آ جاتی تھی ساری دنیا
آج تنہا ہوں تو کوئی نہیں آنے والا
منتظر کس کا ہوں ٹوٹی ہوئی دہلیز پہ میں
کون آئے گا یہاں کون ہے آنے والا
کیا خبر تھی جو مری جاں میں گھلا ہے اتنا
ہے وہی مجھ کو سر دار بھی لانے والا
میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن کو جلتے
ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فرازؔ
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
next
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
کچھ تو مرے پندار محبت کا بھرم رکھ
تو بھی تو کبھی مجھ کو منانے کے لیے آ
پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تو
رسم و رہ دنیا ہی نبھانے کے لیے آ
کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ
اک عمر سے ہوں لذت گریہ سے بھی محروم
اے راحت جاں مجھ کو رلانے کے لیے آ
اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں
یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لیے آ
next
عجب جنون مسافت میں گھر سے نکلا تھا
خبر نہیں ہے کہ سورج کدھر سے نکلا تھا
یہ کون پھر سے انہیں راستوں میں چھوڑ گیا
ابھی ابھی تو عذاب سفر سے نکلا تھا
یہ تیر دل میں مگر بے سبب نہیں اترا
کوئی تو حرف لب چارہ گر سے نکلا تھا
یہ اب جو آگ بنا شہر شہر پھیلا ہے
یہی دھواں مرے دیوار و در سے نکلا تھا
میں رات ٹوٹ کے رویا تو چین سے سویا
کہ دل کا زہر مری چشم تر سے نکلا تھا
یہ اب جو سر ہیں خمیدہ کلاہ کی خاطر
یہ عیب بھی تو ہم اہل ہنر سے نکلا تھا
وہ قیس اب جسے مجنوں پکارتے ہیں فرازؔ
تری طرح کوئی دیوانہ گھر سے نکلا تھا
next
قرب جاناں کا نہ مے خانے کا موسم آیا
پھر سے بے صرفہ اجڑ جانے کا موسم آیا
کنج غربت میں کبھی گوشۂ زنداں میں تھے ہم
جان جاں جب بھی ترے آنے کا موسم آیا
اب لہو رونے کی خواہش نہ لہو ہونے کی
دل زندہ ترے مر جانے کا موسم آیا
کوچۂ یار سے ہر فصل میں گزرے ہیں مگر
شاید اب جاں سے گزر جانے کا موسم آیا
کوئی زنجیر کوئی حرف خرد لے آیا
فصل گل آئی کہ دیوانے کا موسم آیا
سیل خوں شہر کی گلیوں میں در آیا ہے فرازؔ
اور تو خوش ہے کہ گھر جانے کا موسم آیا
next
فقیہ شہر کی مجلس سے کچھ بھلا نہ ہوا
کہ اس سے مل کے مزاج اور کافرانہ ہوا
ابھی ابھی وہ ملا تھا ہزار باتیں کیں
ابھی ابھی وہ گیا ہے مگر زمانہ ہوا
وہ رات بھول چکو وہ سخن نہ دہراؤ
وہ رات خواب ہوئی وہ سخن فسانہ ہوا
کچھ اب کے ایسے کڑے تھے فراق کے موسم
تری ہی بات نہیں میں بھی کیا سے کیا نہ ہوا
ہجوم ایسا کہ راہیں نظر نہیں آتیں
نصیب ایسا کہ اب تک تو قافلہ نہ ہوا
شہید شب فقط احمد فرازؔ ہی تو نہیں
کہ جو چراغ بکف تھا وہی نشانہ ہوا
next
منتظر کب سے تحیر ہے تری تقریر کا
بات کر تجھ پر گماں ہونے لگا تصویر کا
رات کیا سوئے کہ باقی عمر کی نیند اڑ گئی
خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا
کیسے پایا تھا تجھے پھر کس طرح کھویا تجھے
مجھ سا منکر بھی تو قائل ہو گیا تقدیر کا
جس طرح بادل کا سایہ پیاس بھڑکاتا رہے
میں نے یہ عالم بھی دیکھا ہے تری تصویر کا
جانے کس عالم میں تو بچھڑا کہ ہے تیرے بغیر
آج تک ہر نقش فریادی مری تحریر کا
عشق میں سر پھوڑنا بھی کیا کہ یہ بے مہر لوگ
جوئے خوں کو نام دے دیتے ہیں جوئے شیر کا
جس کو بھی چاہا اسے شدت سے چاہا ہے فرازؔ
سلسلہ ٹوٹا نہیں ہے درد کی زنجیر کا
next
میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا
قرعۂ فال مرے نام کا اکثر نکلا
تھا جنہیں زعم وہ دریا بھی مجھی میں ڈوبے
میں کہ صحرا نظر آتا تھا سمندر نکلا
میں نے اس جان بہاراں کو بہت یاد کیا
جب کوئی پھول مری شاخ ہنر پر نکلا
شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر
میں نے جس ہاتھ کو چوما وہی خنجر نکلا
تو یہیں ہار گیا ہے مرے بزدل دشمن
مجھ سے تنہا کے مقابل ترا لشکر نکلا
میں کہ صحرائے محبت کا مسافر تھا فرازؔ
ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا
next
یوں تو پہلے بھی ہوئے اس سے کئی بار جدا
لیکن اب کے نظر آتے ہیں کچھ آثار جدا
گر غم سود و زیاں ہے تو ٹھہر جا اے جاں
کہ اسی موڑ پہ یاروں سے ہوئے یار جدا
دو گھڑی اس سے رہو دور تو یوں لگتا ہے
جس طرح سایۂ دیوار سے دیوار جدا
یہ جدائی کی گھڑی ہے کہ جھڑی ساون کی
میں جدا گریہ کناں ابر جدا یار جدا
کج کلاہوں سے کہے کون کہ اے بے خبروں
طوق گردن سے نہیں طرۂ دستار جدا
کوئے جاناں میں بھی خاصا تھا طرح دار فرازؔ
لیکن اس شخص کی سج دھج تھی سر دار جدا
next
پھر اسی رہ گزار پر شاید
ہم کبھی مل سکیں مگر شاید
جن کے ہم منتظر رہے ان کو
مل گئے اور ہم سفر شاید
جان پہچان سے بھی کیا ہوگا
پھر بھی اے دوست غور کر شاید
اجنبیت کی دھند چھٹ جائے
چمک اٹھے تری نظر شاید
زندگی بھر لہو رلائے گی
یاد یاران بے خبر شاید
جو بھی بچھڑے وہ کب ملے ہیں فرازؔ
پھر بھی تو انتظار کر شاید
next
جان سے عشق اور جہاں سے گریز
دوستوں نے کیا کہاں سے گریز
ابتدا کی تیرے قصیدے سے
اب یہ مشکل کروں کہاں سے گریز
میں وہاں ہوں جہاں جہاں تم ہو
تم کروگے کہاں کہاں سے گریز
کر گیا میرے تیرے قصے میں
داستاں گو یہاں وہاں سے گریز
جنگ ہاری نہ تھی ابھی کہ فرازؔ
کر گئے دوست درمیاں سے گریز
next
تیرے ہوتے ہوئے محفل میں جلاتے ہیں چراغ
لوگ کیا سادہ ہیں سورج کو دکھاتے ہیں چراغ
اپنی محرومی کے احساس سے شرمندہ ہیں
خود نہیں رکھتے تو اوروں کے بجھاتے ہیں چراغ
بستیاں دور ہوئی جاتی ہیں رفتہ رفتہ
دم بہ دم آنکھوں سے چھپتے چلے جاتے ہیں چراغ
کیا خبر ان کو کہ دامن بھی بھڑک اٹھتے ہیں
جو زمانے کی ہواؤں سے بچاتے ہیں چراغ
گو سیہ بخت ہیں ہم لوگ پہ روشن ہے ضمیر
خود اندھیرے میں ہیں دنیا کو دکھاتے ہیں چراغ
بستیاں چاند ستاروں کی بسانے والو
کرۂ ارض پہ بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ
ایسے بے درد ہوئے ہم بھی کہ اب گلشن پر
برق گرتی ہے تو زنداں میں جلاتے ہیں چراغ
ایسی تاریکیاں آنکھوں میں بسی ہیں کہ فرازؔ
رات تو رات ہے ہم دن کو جلاتے ہیں چراغ
next
روگ ایسے بھی غم یار سے لگ جاتے ہیں
در سے اٹھتے ہیں تو دیوار سے لگ جاتے ہیں
عشق آغاز میں ہلکی سی خلش رکھتا ہے
بعد میں سیکڑوں آزار سے لگ جاتے ہیں
پہلے پہلے ہوس اک آدھ دکاں کھولتی ہے
پھر تو بازار کے بازار سے لگ جاتے ہیں
بے بسی بھی کبھی قربت کا سبب بنتی ہے
رو نہ پائیں تو گلے یار سے لگ جاتے ہیں
کترنیں غم کی جو گلیوں میں اڑی پھرتی ہیں
گھر میں لے آؤ تو انبار سے لگ جاتے ہیں
داغ دامن کے ہوں دل کے ہوں کہ چہرے کے فرازؔ
کچھ نشاں عمر کی رفتار سے لگ جاتے ہیں
next
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے حشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اس کی
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے آئنہ تمثال ہے جبیں اس کی
جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی گردن میں
مزاج اور ہی لعل و گہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے چشم تصور سے دشت امکاں میں
پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
وہ سرو قد ہے مگر بے گل مراد نہیں
کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں
بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا
سو رہروان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت
مکیں ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں
رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
کسے نصیب کہ بے پیرہن اسے دیکھے
کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں
کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں
اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
فرازؔ آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں
next
خاموش ہو کیوں داد جفا کیوں نہیں دیتے
بسمل ہو تو قاتل کو دعا کیوں نہیں دیتے
وحشت کا سبب روزن زنداں تو نہیں ہے
مہر و مہ و انجم کو بجھا کیوں نہیں دیتے
اک یہ بھی تو انداز علاج غم جاں ہے
اے چارہ گرو درد بڑھا کیوں نہیں دیتے
منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے
مجرم ہیں اگر ہم تو سزا کیوں نہیں دیتے
رہزن ہو تو حاضر ہے متاع دل و جاں بھی
رہبر ہو تو منزل کا پتہ کیوں نہیں دیتے
کیا بیت گئی اب کے فرازؔ اہل چمن پر؟
یاران قفس مجھ کو صدا کیوں نہیں دیتے
next
زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے
تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے
تو محبت سے کوئی چال تو چل
ہار جانے کا حوصلہ ہے مجھے
دل دھڑکتا نہیں ٹپکتا ہے
کل جو خواہش تھی آبلہ ہے مجھے
ہم سفر چاہیئے ہجوم نہیں
اک مسافر بھی قافلہ ہے مجھے
کوہ کن ہو کہ قیس ہو کہ فرازؔ
سب میں اک شخص ہی ملا ہے مجھے
Comments
Post a Comment