نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
جذبۂ بے اختیار شوق دیکھا چاہئے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
بسکہ ہوں غالبؔ اسیری میں بھی آتش زیر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
آتشیں پا ہوں گداز وحشت زنداں نہ پوچھ
موئے آتش دیدہ ہے ہر حلقہ یاں زنجیر کا
شوخیٔ نیرنگ صید وحشت طاؤس ہے
دام سبزہ میں ہے پرواز چمن تسخیر کا
لذت ایجاد ناز افسون عرض ذوق قتل
نعل آتش میں ہے تیغ یار سے نخچیر کا
خشت پشت دست عجز و قالب آغوش وداع
پر ہوا ہے سیل سے پیمانہ کس تعمیر کا
وحشت خواب عدم شور تماشا ہے اسدؔ
جو مزہ جوہر نہیں آئینۂ تعبیر کا
next
unpublished
unpublished
next
unpublished
next
next
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
صحرا مگر بہ تنگی چشم حسود تھا
آشفتگی نے نقش سویدا کیا درست
ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا
لیتا ہوں مکتب غم دل میں سبق ہنوز
لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا
ڈھانپا کفن نے داغ عیوب برہنگی
میں ورنہ ہر لباس میں ننگ وجود تھا
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسدؔ
سرگشتۂ خمار رسوم و قیود تھا
عالم جہاں بہ عرض بساط وجود تھا
جوں صبح چاک جیب مجھے تار و پود تھا
بازی خور فریب ہے اہل نظر کا ذوق
ہنگامہ گرم حیرت بود و نبود تھا
عالم طلسم شہر خموشی ہے سربسر
یا میں غریب کشور گفت و شنود تھا
تنگی رفیق رہ تھی عدم یا وجود تھا
میرا سفر بہ طالع چشم حسود تھا
تو یک جہاں قماش ہوس جمع کر کہ میں
حیرت متاع عالم نقصان و سود تھا
گردش محیط ظلم رہا جس قدر فلک
میں پائمال غمزۂ چشم کبود تھا
پوچھا تھا گرچہ یار نے احوال دل مگر
کس کو دماغ منت گفت و شنود تھا
خور شبنم آشنا نہ ہوا ورنہ میں اسدؔ
سر تا قدم گزارش ذوق سجود تھا
next
کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
دل کہاں کہ گم کیجے ہم نے مدعا پایا
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی درد بے دوا پایا
دوست دار دشمن ہے اعتماد دل معلوم
آہ بے اثر دیکھی نالہ نارسا پایا
سادگی و پرکاری بے خودی و ہشیاری
حسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا
غنچہ پھر لگا کھلنے آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا گم کیا ہوا پایا
حال دل نہیں معلوم لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بارہا ڈھونڈا تم نے بارہا پایا
شور پند ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا
بے دماغ خجلت ہوں رشک امتحاں تا کے
ایک بیکسی تجھ کو عالم آشنا پایا
خاک بازی امید کارخانۂ طفلی
یاس کو دو عالم سے لب بہ خندہ وا پایا
کیوں نہ وحشت غالب باج خواہ تسکیں ہو
کشتۂ تغافل کو خصم خوں بہا پایا
فکر نالہ میں گویا حلقہ ہوں ز سر تا پا
عضو عضو جوں زنجیر یک دل صدا پایا
شب نظارہ پرور تھا خواب میں خیال اس کا
صبح موجۂ گل کو نقش بوریا پایا
جس قدر جگر خوں ہو کوچہ دادن گل ہے
زخم تیغ قاتل کو طرفہ دل کشا پایا
ہے مکیں کی پا داری نام صاحب خانہ
ہم سے تیرے کوچے نے نقش مدعا پایا
نے اسدؔ جفا سائل نے ستم جنوں مائل
تجھ کو جس قدر ڈھونڈا الفت آزما پایا
شوق ہر رنگ رقیب سر و ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا
زخم نے داد نہ دی تنگئ دل کی یا رب
تیر بھی سینۂ بسمل سے پرافشاں نکلا
بوئے گل نالۂ دل دود چراغ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
دل حسرت زدہ تھا مائدۂ لذت درد
کام یاروں کا بہ قدر لب و دنداں نکلا
تھی نوآموز فنا ہمت دشوار پسند
سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکلا
دل میں پھر گریہ نے اک شور اٹھایا غالبؔ
آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا سو طوفاں نکلا
کارخانے سے جنوں کے بھی میں عریاں نکلا
میری قسمت کا نہ ایک آدھ گریباں نکلا
ساغر جلوۂ سرشار ہے ہر ذرۂ خاک
شوق دیدار بلا آئنہ ساماں نکلا
کچھ کھٹکتا تھا مرے سینے میں لیکن آخر
جس کو دل کہتے تھے سو تیر کا پیکاں نکلا
کس قدر خاک ہوا ہے دل مجنوں یا رب
نقش ہر ذرہ سویداۓ بیاباں نکلا
شور رسوائی دل دیکھ کہ یک نالۂ شوق
لاکھ پردے میں چھپا پر وہی عریاں نکلا
شوخیٔ رنگ حنا خون وفا سے کب تک
آخر اے عہد شکن تو بھی پشیماں نکلا
جوہر ایجاد خط سبز ہے خود بینیٔ حسن
جو نہ دیکھا تھا سو آئینے میں پنہاں نکلا
میں بھی معذور جنوں ہوں اسدؔ اے خانہ خراب
پیشوا لینے مجھے گھر سے بیاباں نکلا
next
ستائش گر ہے زاہد اس قدر جس باغ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بے خودوں کے طاق نسیاں کا
بیاں کیا کیجیے بیداد کاوش ہائے مژگاں کا
کہ ہر یک قطرۂ خوں دانہ ہے تسبیح مرجاں کا
نہ آئی سطوت قاتل بھی مانع میرے نالوں کو
لیا دانتوں میں جو تنکا ہوا ریشہ نیستاں کا
دکھاؤں گا تماشا دی اگر فرصت زمانے نے
مرا ہر داغ دل اک تخم ہے سرو چراغاں کا
کیا آئینہ خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے
کرے جو پرتو خورشید عالم شبنمستاں کا
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا
اگا ہے گھر میں ہر سو سبزہ ویرانی تماشا کر
مدار اب کھودنے پر گھاس کے ہے میرے درباں کا
خموشی میں نہاں خوں گشتہ لاکھوں آرزوئیں ہیں
چراغ مردہ ہوں میں بے زباں گور غریباں کا
ہنوز اک پرتو نقش خیال یار باقی ہے
دل افسردہ گویا حجرہ ہے یوسف کے زنداں کا
بغل میں غیر کی آج آپ سوتے ہیں کہیں ورنہ
سبب کیا خواب میں آ کر تبسم ہائے پنہاں کا
نہیں معلوم کس کس کا لہو پانی ہوا ہوگا
قیامت ہے سرشک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا
نظر میں ہے ہماری جادۂ راہ فنا غالبؔ
کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزائے پریشاں کا
next
دوست غم خواری میں میری سعی فرماویں گے کیا
زخم کے بھرتے تلک ناخن نہ بڑھ جاویں گے کیا
بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک
ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرماویں گے کیا
حضرت ناصح گر آویں دیدہ و دل فرش راہ
کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھاویں گے کیا
آج واں تیغ و کفن باندھے ہوے جاتا ہوں میں
عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لاویں گے کیا
گر کیا ناصح نے ہم کو قید اچھا یوں سہی
یہ جنون عشق کے انداز چھٹ جاویں گے کیا
خانہ زاد زلف ہیں زنجیر سے بھاگیں گے کیوں
ہیں گرفتار وفا زنداں سے گھبراویں گے کیا
ہے اب اس معمورہ میں قحط غم الفت اسدؔ
ہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہیں کھاویں گے کیا
Comments
Post a Comment