Mir Taqi Mir

 Image result for mir taqi mir  pics
اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا
چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا
امیدوار وعدۂ دیدار مر چلے
آتے ہی آتے یارو قیامت کو کیا ہوا
کب تک تظلم آہ بھلا مرگ کے تئیں
کچھ پیش آیا واقعہ رحمت کو کیا ہوا
اس کے گئے پر ایسے گئے دل سے ہم نشیں
معلوم بھی ہوا نہ کہ طاقت کو کیا ہوا
بخشش نے مجھ کو ابر کرم کی کیا خجل
اے چشم جوش اشک ندامت کو کیا ہوا
جاتا ہے یار تیغ بکف غیر کی طرف
اے کشتۂ ستم تری غیرت کو کیا ہوا
تھی صعب عاشقی کی بدایت ہی میرؔ پر
کیا جانیے کہ حال نہایت کو کیا ہوا


 next


اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
لوہو آتا ہے جب نہیں آتا
ہوش جاتا نہیں رہا لیکن
جب وہ آتا ہے تب نہیں آتا
صبر تھا ایک مونس ہجراں
سو وہ مدت سے اب نہیں آتا
دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش
گریہ کچھ بے سبب نہیں آتا
عشق کو حوصلہ ہے شرط ارنہ
بات کا کس کو ڈھب نہیں آتا
جی میں کیا کیا ہے اپنے اے ہمدم
پر سخن تا بلب نہیں آتا
دور بیٹھا غبار میرؔ اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا 


next


الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا
حرف نہیں جاں بخشی میں اس کی خوبی اپنی قسمت کی
ہم سے جو پہلے کہہ بھیجا سو مرنے کا پیغام کیا
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں
بانکے ٹیڑھے ترچھے تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا
سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی
کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا
کس کا کعبہ کیسا قبلہ کون حرم ہے کیا احرام
کوچے کے اس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا
شیخ جو ہے مسجد میں ننگا رات کو تھا مے خانے میں
جبہ خرقہ کرتا ٹوپی مستی میں انعام کیا
کاش اب برقعہ منہ سے اٹھا دے ورنہ پھر کیا حاصل ہے
آنکھ مندے پر ان نے گو دیدار کو اپنے عام کیا
یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کیا یا دن کو جوں توں شام کیا
صبح چمن میں اس کو کہیں تکلیف ہوا لے آئی تھی
رخ سے گل کو مول لیا قامت سے سرو غلام کیا
ساعد سیمیں دونوں اس کے ہاتھ میں لا کر چھوڑ دیئے
بھولے اس کے قول و قسم پر ہائے خیال خام کیا
کام ہوئے ہیں سارے ضائع ہر ساعت کی سماجت سے
استغنا کی چوگنی ان نے جوں جوں میں ابرام کیا
ایسے آہوئے رم خوردہ کی وحشت کھونی مشکل تھی
سحر کیا اعجاز کیا جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا
میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا


next


جو اس شور سے میرؔ روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا
میں وہ رونے والا جہاں سے چلا ہوں
جسے ابر ہر سال روتا رہے گا
مجھے کام رونے سے اکثر ہے ناصح
تو کب تک مرے منہ کو دھوتا رہے گا
بس اے گریہ آنکھیں تری کیا نہیں ہیں
کہاں تک جہاں کو ڈبوتا رہے گا
مرے دل نے وہ نالہ پیدا کیا ہے
جرس کے بھی جو ہوش کھوتا رہے گا
تو یوں گالیاں غیر کو شوق سے دے
ہمیں کچھ کہے گا تو ہوتا رہے گا
بس اے میرؔ مژگاں سے پونچھ آنسوؤں کو
تو کب تک یہ موتی پروتا رہے گا



next


منہ تکا ہی کرے ہے جس تس کا
حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا
شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہوں
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
تھے برے مغبچوں کے تیور لیک
شیخ مے خانے سے بھلا کھسکا
داغ آنکھوں سے کھل رہے ہیں سب
ہاتھ دستہ ہوا ہے نرگس کا
بحر کم ظرف ہے بسان حباب
کاسہ لیس اب ہوا ہے تو جس کا
فیض اے ابر چشم تر سے اٹھا
آج دامن وسیع ہے اس کا
تاب کس کو جو حال میرؔ سنے
حال ہی اور کچھ ہے مجلس کا



next


شہر سے یار سوار ہوا جو سواد میں خوب غبار ہے آج
دشتی وحش و طیر اس کے سر تیزی ہی میں شکار ہے آج
بر افروختہ رخ ہے اس کا کس خوبی سے مستی میں
پی کے شراب شگفتہ ہوا ہے اس نو گل پہ بہار ہے آج
اس کا بحر حسن سراسر اوج و موج و تلاطم ہے
شوق کی اپنے نگاہ جہاں تک جاوے بوس و کنار ہے آج
آنکھیں اس کی لال ہوئیں ہیں اور چلے جاتے ہیں سر
رات کو دارو پی سویا تھا اس کا صبح خمار ہے آج
گھر آئے ہو فقیروں کے تو آؤ بیٹھو لطف کرو
کیا ہے جان بن اپنے کنے سو ان قدموں پہ نثار ہے آج
کیا پوچھو ہو سانجھ تلک پہلو میں کیا کیا تڑپا ہے
کل کی نسبت دل کو ہمارے بارے کچھ تو قرار ہے آج
خوب جو آنکھیں کھول کے دیکھا شاخ گل سا نظر آیا
ان رنگوں پھولوں میں ملا کچھ محو جلوۂ یار ہے آج
جذب عشق جدھر چاہے لے جائے ہے محمل لیلیٰ کا
یعنی ہاتھ میں مجنوں کے ناقے کی اس کے مہار ہے آج
رات کا پہنا ہار جو اب تک دن کو اتارا ان نے نہیں
شاید میرؔ جمال گل بھی اس کے گلے کا ہار ہے آج 


next


آ جائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یاں
مہلت ہمیں بسان شرر کم بہت ہے یاں
یک لحظہ سینہ کوبی سے فرصت ہمیں نہیں
یعنی کہ دل کے جانے کا ماتم بہت ہے یاں
حاصل ہے کیا سواے ترائی کے دہر میں
اٹھ آسماں تلے سے کہ شبنم بہت ہے یاں
مائل بہ غیر ہونا تجھ ابرو کا عیب ہے
تھی زور یہ کماں ولے خم چم بہت ہے یاں
ہم رہروان راہ فنا دیر رہ چکے
وقفہ بسان صبح کوئی دم بہت ہے یاں
اس بت کدے میں معنی کا کس سے کریں سوال
آدم نہیں ہے صورت آدم بہت ہے یاں
عالم میں لوگ ملنے کی گوں اب نہیں رہے
ہر چند ایسا ویسا تو عالم بہت ہے یاں
ویسا چمن سے سادہ نکلتا نہیں کوئی
رنگینی ایک اور خم و چم بہت ہے یاں
اعجاز عیسوی سے نہیں بحث عشق میں
تیری ہی بات جان مجسم بہت ہے یاں
میرے ہلاک کرنے کا غم ہے عبث تمہیں
تم شاد زندگانی کرو غم بہت ہے یاں
دل مت لگا رخ عرق آلود یار سے
آئینے کو اٹھا کہ زمیں نم بہت ہے یاں
شاید کہ کام صبح تک اپنا کھنچے نہ میرؔ
احوال آج شام سے درہم بہت ہے یاں 


next


یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں
اب دو تو جام خالی ہی دو میں نشے میں ہوں
ایک ایک قرط دور میں یوں ہی مجھے بھی دو
جام شراب پر نہ کرو میں نشے میں ہوں
مستی سے درہمی ہے مری گفتگو کے بیچ
جو چاہو تم بھی مجھ کو کہو میں نشے میں ہوں
یا ہاتھوں ہاتھ لو مجھے مانند جام مے
یا تھوڑی دور ساتھ چلو میں نشے میں ہوں
معذور ہوں جو پاؤں مرا بے طرح پڑے
تم سرگراں تو مجھ سے نہ ہو میں نشے میں ہوں
بھاگی نماز جمعہ تو جاتی نہیں ہے کچھ
چلتا ہوں میں بھی ٹک تو رہو میں نشے میں ہوں
نازک مزاج آپ قیامت ہیں میرؔ جی
جوں شیشہ میرے منہ نہ لگو میں نشے میں ہوں




next



عمر بھر ہم رہے شرابی سے
دل پرخوں کی اک گلابی سے
جی ڈھا جائے ہے سحر سے آہ
رات گزرے گی کس خرابی سے
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے
برقعہ اٹھتے ہی چاند سا نکلا
داغ ہوں اس کی بے حجابی سے
کام تھے عشق میں بہت پر میرؔ
ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے 


next


فقیرانہ آئے صدا کر چلے
کہ میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے
شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی
کہ مقدور تک تو دوا کر چلے
پڑے ایسے اسباب پایان کار
کہ ناچار یوں جی جلا کر چلے
وہ کیا چیز ہے آہ جس کے لیے
ہر اک چیز سے دل اٹھا کر چلے
کوئی ناامیدانہ کرتے نگاہ
سو تم ہم سے منہ بھی چھپا کر چلے
بہت آرزو تھی گلی کی تری
سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے
دکھائی دیئے یوں کہ بے خود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے
جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی
حق بندگی ہم ادا کر چلے
پرستش کی یاں تک کہ اے بت تجھے
نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے
جھڑے پھول جس رنگ گلبن سے یوں
چمن میں جہاں کے ہم آ کر چلے
نہ دیکھا غم دوستاں شکر ہے
ہمیں داغ اپنا دکھا کر چلے
گئی عمر در بند فکر غزل
سو اس فن کو ایسا بڑا کر چلے
کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میرؔ
جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے

 next 
versaurdu.blogspot.com

Comments