اپنے ماحول سے تھے قیس کے رشتے کیا کیا
دشت میں آج بھی اٹھتے ہیں بگولے کیا کیا
عشق معیار وفا کو نہیں کرتا نیلام
ورنہ ادراک نے دکھلائے تھے رستے کیا کیا
یہ الگ بات کہ برسے نہیں گرجے تو بہت
ورنہ بادل مرے صحراؤں پہ امڈے کیا کیا
آگ بھڑکی تو در و بام ہوئے راکھ کے ڈھیر
اور دیتے رہے احباب دلاسے کیا کیا
لوگ اشیا کی طرح بک گئے اشیا کے لیے
سر بازار تماشے نظر آئے کیا کیا
لفظ کس شان سے تخلیق ہوا تھا لیکن
اس کا مفہوم بدلتے رہے نقطے کیا کیا
اک کرن تک بھی نہ پہنچی مرے باطن میں ندیمؔ
سر افلاک دمکتے رہے تارے کیا کیا
next
انداز ہو بہو تری آواز پا کا تھا
دیکھا نکل کے گھر سے تو جھونکا ہوا کا تھا
اس حسن اتفاق پہ لٹ کر بھی شاد ہوں
تیری رضا جو تھی وہ تقاضا وفا کا تھا
دل راکھ ہو چکا تو چمک اور بڑھ گئی
یہ تیری یاد تھی کہ عمل کیمیا کا تھا
اس رشتۂ لطیف کے اسرار کیا کھلیں
تو سامنے تھا اور تصور خدا کا تھا
چھپ چھپ کے روؤں اور سر انجمن ہنسوں
مجھ کو یہ مشورہ مرے درد آشنا کا تھا
اٹھا عجب تضاد سے انسان کا خمیر
عادی فنا کا تھا تو پجاری بقا کا تھا
ٹوٹا تو کتنے آئنہ خانوں پہ زد پڑی
اٹکا ہوا گلے میں جو پتھر صدا کا تھا
حیران ہوں کہ وار سے کیسے بچا ندیمؔ
وہ شخص تو غریب و غیور انتہا کا تھا
next
تو جو بدلا تو زمانہ بھی بدل جائے گا
گھر جو سلگا تو بھرا شہر بھی جل جائے گا
سامنے آ کہ مرا عشق ہے منطق میں اسیر
آگ بھڑکی تو یہ پتھر بھی پگھل جائے گا
دل کو میں منتظر ابر کرم کیوں رکھوں
پھول ہے قطرۂ شبنم سے بہل جائے گا
موسم گل اگر اس حال میں آیا بھی تو کیا
خون گل چہرۂ گلزار پہ مل جائے گا
وقت کے پاؤں کی زنجیر ہے رفتار ندیمؔ
ہم جو ٹھہرے تو افق دور نکل جائے گا
next
لب خاموش سے افشا ہوگا
راز ہر رنگ میں رسوا ہوگا
دل کے صحرا میں چلی سرد ہوا
ابر گلزار پہ برسا ہوگا
تم نہیں تھے تو سر بام خیال
یاد کا کوئی ستارہ ہوگا
کس توقع پہ کسی کو دیکھیں
کوئی تم سے بھی حسیں کیا ہوگا
زینت حلقۂ آغوش بنو
دور بیٹھو گے تو چرچا ہوگا
جس بھی فن کار کا شہکار ہو تم
اس نے صدیوں تمہیں سوچا ہوگا
آج کی رات بھی تنہا ہی کٹی
آج کے دن بھی اندھیرا ہوگا
کس قدر کرب سے چٹکی ہے کلی
شاخ سے گل کوئی ٹوٹا ہوگا
عمر بھر روئے فقط اس دھن میں
رات بھیگی تو اجالا ہوگا
ساری دنیا ہمیں پہچانتی ہے
کوئی ہم سا بھی نہ تنہا ہوگا
next
تنگ آ جاتے ہیں دریا جو کہستانوں میں
سانس لینے کو نکل جاتے ہیں میدانوں میں
خیر ہو دشت نوردان محبت کی اب
شہر بستے چلے جاتے ہیں بیابانوں میں
اب تو لے لیتا ہے باطن سے یہی کام جنوں
نظر آتے نہیں اب چاک گریبانوں میں
مال چوری کا جو تقسیم کیا چوروں نے
نصف تو بٹ گیا بستی کے نگہبانوں میں
کون تاریخ کے اس صدق کو جھٹلائے گا
خیر و شر دونوں مقید رہے زندانوں میں
جستجو کا کوئی انجام تو ظاہر ہو ندیمؔ
اک مسلماں تو نظر آئے مسلمانوں میں
Comments
Post a Comment