Habib Jalib

 Image result for habib jalib pics
اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھن
رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا
ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا
نہ صلے کی نہ ستائش کی تمنا ہم کو
حق میں لوگوں کے ہماری تو ہے عادت لکھنا
ہم نے جو بھول کے بھی شہ کا قصیدہ نہ لکھا
شاید آیا اسی خوبی کی بدولت لکھنا
اس سے بڑھ کر مری تحسین بھلا کیا ہوگی
پڑھ کے ناخوش ہیں مرا صاحب ثروت لکھنا
دہر کے غم سے ہوا ربط تو ہم بھول گئے
سرو قامت کو جوانی کو قیامت لکھنا
کچھ بھی کہتے ہیں کہیں شہ کے مصاحب جالبؔ
رنگ رکھنا یہی اپنا اسی صورت لکھنا


next

تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ
وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا
آج سوئے ہیں تہ خاک نہ جانے یہاں کتنے
کوئی شعلہ کوئی شبنم کوئی مہتاب جبیں تھا
اب وہ پھرتے ہیں اسی شہر میں تنہا لیے دل کو
اک زمانے میں مزاج ان کا سر عرش بریں تھا
چھوڑنا گھر کا ہمیں یاد ہے جالبؔ نہیں بھولے
تھا وطن ذہن میں اپنے کوئی زنداں تو نہیں تھا 

next



بڑے بنے تھے جالبؔ صاحب پٹے سڑک کے بیچ
گولی کھائی لاٹھی کھائی گرے سڑک کے بیچ
کبھی گریباں چاک ہوا اور کبھی ہوا دل خون
ہمیں تو یوں ہی ملے سخن کے صلے سڑک کے بیچ
جسم پہ جو زخموں کے نشاں ہیں اپنے تمغے ہیں
ملی ہے ایسی داد وفا کی کسے سڑک کے بیچ


next

ہجوم دیکھ کے رستہ نہیں بدلتے ہم
کسی کے ڈر سے تقاضا نہیں بدلتے ہم
ہزار زیر قدم راستہ ہو خاروں کا
جو چل پڑیں تو ارادہ نہیں بدلتے ہم
اسی لیے تو نہیں معتبر زمانے میں
کہ رنگ صورت دنیا نہیں بدلتے ہم
ہوا کو دیکھ کے جالبؔ مثال ہم عصراں
بجا یہ زعم ہمارا نہیں بدلتے ہم 


next


دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں
ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں
بیت گیا ساون کا مہینہ موسم نے نظریں بدلیں
لیکن ان پیاسی آنکھوں سے اب تک آنسو بہتے ہیں
ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں
دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں
جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا جن کے لیے بدنام ہوئے
آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں
وہ جو ابھی اس راہ گزر سے چاک گریباں گزرا تھا
اس آوارہ دیوانے کو جالبؔ جالبؔ کہتے ہیں



 next


اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے
زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے
یہ ہنستا ہوا چاند یہ پر نور ستارے
تابندہ و پائندہ ہیں ذروں کے سہارے
حسرت ہے کوئی غنچہ ہمیں پیار سے دیکھے
ارماں ہے کوئی پھول ہمیں دل سے پکارے
ہر صبح مری صبح پہ روتی رہی شبنم
ہر رات مری رات پہ ہنستے رہے تارے
کچھ اور بھی ہیں کام ہمیں اے غم جاناں
کب تک کوئی الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے 

next
 my fvrt

وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
اپنا حلقہ ہے حلقۂ زنجیر
اور حلقے ہیں سب امیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
وہی اہل وفا کی صورت حال
وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے
سازشیں ہیں وہی خلاف عوام
مشورے ہیں وہی مشیروں کے
بیڑیاں سامراج کی ہیں وہی
وہی دن رات ہیں اسیروں کے

Comments