Wasi Shah

 Image result for wasi shah pics
تم مری آنکھ کے تیور نہ بھلا پاؤ گے
ان کہی بات کو سمجھوگے تو یاد آؤں گا
ہم نے خوشیوں کی طرح دکھ بھی اکٹھے دیکھے
صفحۂ زیست کو پلٹو گے تو یاد آؤں گا
اس جدائی میں تم اندر سے بکھر جاؤ گے
کسی معذور کو دیکھو گے تو یاد آؤں گا
اسی انداز میں ہوتے تھے مخاطب مجھ سے
خط کسی اور کو لکھو گے تو یاد آؤں گا
میری خوشبو تمہیں کھولے گی گلابوں کی طرح
تم اگر خود سے نہ بولو گے تو یاد آؤں گا
آج تو محفل یاراں پہ ہو مغرور بہت
جب کبھی ٹوٹ کے بکھرو گے تو یاد آؤں گا 


next


کتنی زلفیں اڑیں کتنے آنچل اڑے چاند کو کیا خبر
کتنا ماتم ہوا کتنے آنسو بہے چاند کو کیا خبر
مدتوں اس کی خواہش سے چلتے رہے ہاتھ آتا نہیں
چاہ میں اس کی پیروں میں ہیں آبلے چاند کو کیا خبر
وہ جو نکلا نہیں تو بھٹکتے رہے ہیں مسافر کئی
اور لٹتے رہے ہیں کئی قافلے چاند کو کیا خبر
اس کو دعویٰ بہت میٹھے پن کا وصیؔ چاندنی سے کہو
اس کی کرنوں سے کتنے ہی گھر جل گئے چاند کو کیا خبر


next

سمندر میں اترتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تری آنکھوں کو پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تمہارا نام لکھنے کی اجازت چھن گئی جب سے
کوئی بھی لفظ لکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تری یادوں کی خوشبو کھڑکیوں میں رقص کرتی ہے
ترے غم میں سلگتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
نہ جانے ہو گیا ہوں اس قدر حساس میں کب سے
کسی سے بات کرتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
میں سارا دن بہت مصروف رہتا ہوں مگر جوں ہی
قدم چوکھٹ پہ رکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
ہر اک مفلس کے ماتھے پر الم کی داستانیں ہیں
کوئی چہرہ بھی پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
بڑے لوگوں کے اونچے بد نما اور سرد محلوں کو
غریب آنکھوں سے تکتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
ترے کوچے سے اب میرا تعلق واجبی سا ہے
مگر جب بھی گزرتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
ہزاروں موسموں کی حکمرانی ہے مرے دل پر
وصیؔ میں جب بھی ہنستا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں


next


تو میں بھی خوش ہوں کوئی اس سے جا کے کہہ دینا
اگر وہ خوش ہے مجھے بے قرار کرتے ہوئے
تمہیں خبر ہی نہیں ہے کہ کوئی ٹوٹ گیا
محبتوں کو بہت پائیدار کرتے ہوئے
میں مسکراتا ہوا آئنے میں ابھروں گا
وہ رو پڑے گی اچانک سنگھار کرتے ہوئے
مجھے خبر تھی کہ اب لوٹ کر نہ آؤں گا
سو تجھ کو یاد کیا دل پہ وار کرتے ہوئے
یہ کہہ رہی تھی سمندر نہیں یہ آنکھیں ہیں
میں ان میں ڈوب گیا اعتبار کرتے ہوئے
بھنور جو مجھ میں پڑے ہیں وہ میں ہی جانتا ہوں
تمہارے ہجر کے دریا کو پار کرتے ہوئے



next



تم مری آنکھ کے تیور نہ بھلا پاؤ گے
ان کہی بات کو سمجھوگے تو یاد آؤں گا
ہم نے خوشیوں کی طرح دکھ بھی اکٹھے دیکھے
صفحۂ زیست کو پلٹو گے تو یاد آؤں گا
اس جدائی میں تم اندر سے بکھر جاؤ گے
کسی معذور کو دیکھو گے تو یاد آؤں گا
اسی انداز میں ہوتے تھے مخاطب مجھ سے
خط کسی اور کو لکھو گے تو یاد آؤں گا
میری خوشبو تمہیں کھولے گی گلابوں کی طرح
تم اگر خود سے نہ بولو گے تو یاد آؤں گا
آج تو محفل یاراں پہ ہو مغرور بہت
جب کبھی ٹوٹ کے بکھرو گے تو یاد آؤں گا
 
 
 

Comments